قیمتی پتھر اور آپ
چمکتے دمکتے قیمتی اور نیم قیمتی پتھروں نے زمانہ قدیم سے ہی انسان کو مسحور کیا ہے بلکہ وہ ان پتھروں کی نمائش کے ذریعے اپنے سماجی مرتبے کا اظہار بھی کرتا رہا ہے۔ آج بھی جب فنونِ لطیفہ اور فلم سے وابستہ کسی نسوانی شخصیت کاذکرہوتا ہے تو اس کے پاس موجود قیمتی پتھر ضرور زیر بحث آتے ہیں۔ ان جواہرات کی تلاش ہی سربمہر اہرام مصر کی انیسویں صدی میں کھدائی کا باعث بنی تھی۔ محققین نے قدیم کتابوں میں پڑھا تھا کہ فراعنۂ مصر اپنی نعش کے ساتھ اپنے جواہرات بھی اپنے اہرام میں دفن کروا دیتے تھے اور انہی قدیم نقوش کو سمیٹ کر ان کھوجیوں نے ہر اہرام کا کونہ کونہ چھان مارا اور جواہرات کے بے پناہ خزانوں سے مالامال ہوئے۔ قاہرہ کا عجائب گھر ان جواہرات کو محفوظ کئے ہوئے ہے۔ بلکہ لاہور، بھمبور، پشاور، ٹیکسلا، لندن اور پیرس کے عجائب گھروں کی نمایاں زینت یہی جواہرات ہیں۔ لندن کے قلعہ کے تہہ خانے میں کوہ نور ہیرا ہر روز ہزاروں تماشائیوں کی نظروں کو چکا چوند کرتا ہے۔
جواہرات کی خوبصورتی مسلمہ ہے مگر اس کے کئی پہلو اور بھی ہیں، جن پر عظیم انسانوں نے ہر زمانے میں تحقیق کی ہے۔ ایک تو، ان پتھروں کے طبی خواص ہیں۔ ہیرا نگل جانے والا انسان چند لمحوں میں ہی موت کی لپیٹ میں آ جاتا ہے اور ہیرے کا کشتہ کھانے والا انسان صحت اور طاقت سے ہمکنار ہو جاتا ہے۔ مرجان، عقیق اور مو تی قیمتی اور زود اثر دوائیوں کا اہم ترین جزو ہیں۔
دوسرا پہلو پتھروں کے سحری خواص کے بارے میں ہے۔
منجمین نے اس کائنات کی ہر شے کو سات سیاروں سے منسوب کیا ہے۔ پتھر کائنات کی اہم اشیاء میں سے ہیں اور اس لئے علمِ نجوم کا نمایاں حصہ رہے ہیں۔ ان پتھروں کو سیاروں سے منسوب کرتے وقت ایک بنیادی اصول رنگ کا قائم کیا گیا ہے۔ سیارہ زحل سے کالا رنگ منسوب ہے۔ چنانچہ ہر کالا پتھر زحل کے زیر اثر ہے۔ مثلاً کالا عقیق۔ اپنی کیمیاوی ہیئت کے اعتبار سے نیلم بھی زحل کا پتھر ہے۔ اسی طرح سفید عقیق اور موتی سیارہ قمر کے پتھر ہیں۔
پتھروں کو نام اور تاریخ پیدائش سے بھی منسوب کیا گیا ہے۔ چنانچہ جس شخص کا نام صرف ’’ف‘‘ سے شروع ہوتا ہووہ مشتری کے زیر اثر ہے اور زرد پکھراج اس کا حرفی پتھر ہے۔ اسی طرح جو شخص ۲۱ اکتوبر تا ۲۱ نومبر کے درمیانی عرصہ میں پیدا ہوا ہو اس کا شمسی برج عقرب ہے اور سیارہ مریخ اور سرخ یاقوت اس کا پیدائشی پتھر ہے۔ کوئی حرف اور کوئی تاریخ پیدائش ایسی نہیں جس کا اپنا کوئی منسوبی پتھر نہ ہو۔ نام اور تاریخ پیدائش کے لحاظ سے پتھر پہنے جاتے ہیں۔
مگر زیادہ مستند طریقہ پتھروں کے استعمال کا یہ ہے کہ پیدائشی زائچہ میں جو سعد سیارہ کمزور ہو اس کو سحری طور پر طاقتور بنایا جائے اور ذاتی سیارہ مالک طالع سے اس کی نظرات سعد قائم کی جائیں یہ نقوش، الواح، انگشتری اور عملیات کے ذریعے کیا جاتا ہے اور کافی حد تک پتھروں کے استعمال کے ذریعے بھی۔ چنانچہ سیارہ قمر کو زحل نحس متاثر کرتا ہو تو قمر کی سعدیت کم بلکہ بے اثر ہو کر نحوست میں بدل جائے گی اور ایسا شخص ہر چیزکے ہوتے ہوئے بھی ہمیشہ ناخوش رہے گا۔ اس کے اکثر کام رک رک کر ہوں گے اور عدم استحکام کا وہ ہمیشہ شکار رہے گا۔ ان نحس اثرات کو دور کرنے کے لئے قمر اور زحل کے مابین سعد نظرات قائم ہونے کے وقت پر چاندی کی انگوٹھی میں نیلم جڑوا کر پہننا چاہیئے۔ چاندی قمر سے اور نیلم زحل سے منسوب ہیں۔ ان دونوں کو سعد وقت میں دوست بنانا ضروری ہے۔
نیز ہر سیارے کا ایک خاص دن اور ایک خاص ساعت ہے۔ زحل کا دن ہفتہ، قمر کا سوموار، شمس کا اتوار، مریخ کا منگل، عطارد کا بدھ، مشتری کا جمعرات اور زہرہ کا جمعہ ہے۔ طلوع آفتاب کے وقت سے قریباً ایک گھنٹہ تک اس سیارے کی پہلی ساعت ہوتی ہے۔ چنانچہ ہفتہ کے روز پہلی ساعت سیارہ زحل کی ہے۔ چنانچہ اس دن اور ساعت کو متعلقہ پتھر پہننا چاہیئے۔ کسی دوسرے دن اور کسی دوسری ساعت میں اثر نہ ہو گا۔
سیاروں کی جداگانہ خوشبویات، بخورات اور صدقات ہیں۔ چنانچہ متعلقہ پتھر کو پہنتے وقت متعلقہ بخورات کو جلانا، خوشبویات کو استعمال کرنا اور صدقات دینا چاہیئے۔ سیارہ زحل سے کالی مرچ کی بو، عطرِ گل کی بو اور کالے تل کا صدقہ منسوب ہے۔ چنانچہ نیلم پہنتے وقت کالی مرچ کو جلانا چاہیئے، عطر گل میں نیلم کو ڈبو کر پہننا چاہیئے اور پہننے کے بعد کالے تل صدقہ میں کسی غریب کو دینا ضروری ہے۔
یہ لوازمات پتھروں کے استعمال کے ہیں اور نہایت ضروری ہیں۔
نیز پتھر کا مسلسل انسانی جلد کو مس ہونا ضروری ہے ورنہ اثر نہ ہو گا۔
پتھر کے استعمال میں سب سے پہلی بات پتھر کی ماہیت کو جاننا اور سمجھنا ہے۔ ان پہلوئوں پر اردو زبان میں کئی کتابیں موجود ہیں اور بعض کتابیں نہایت مستند ہیں۔ لیکن جامع اور مکمل نہیں ہیں۔ وہ کتابیں جو معدنیات کے شائقین کے لئے فنی نقطۂ نظر سے لکھی گئیں ان میں پتھروں کے سحری خواص کا تذکرہ نہیں ملتا۔ جن کتابوں میں پتھروں کے سحری خواص بیان کئے گئے ہیں ان میں فنی معلومات دستیاب نہیں۔ بلکہ ناقص اور اکثر و بیشتر غیر تحقیقی ہیں۔ چنانچہ کوئی ایک کتاب قاری کو مطمئن نہیں کرتی۔ اس کے علاوہ پتھروں کے طلسماتی استعمال کے بارے میں طریقے بیان نہیں کئے گئے جس کی وجہ یہ ہے کہ مصنفین ان طریقوں سے خود بے خبر تھے اور چند کتابوں کو جمع کر کے ان کی تدوین کر دی یا انگریزی سے اردو میں ترجمے کے فرائض انجام دے دیئے۔
زیرنظر کتاب جو بیگم زبیدہ فریدالحق نے مرتب کی ہے، ایک جامع، مبسوط اور مکمل کتاب ہے، پتھروں کے بارے میں اور سرسری نظر سے ہی میرے اس خیال کی تائید ہو جائے گی۔
اس کتاب میں مصنفہ نے ہر پتھر کی فنی اہمیت، کیمیاوی ہیئت اور اثرات بیان کئے ہیں اور اس کا متعلقہ سیارہ بھی تحریر کیا ہے۔ پتھروں کے انگریزی نام بھی دیئے ہیں۔ اس لحاظ سے یہ ایک مکمل کتاب ہے۔
بیگم زبیدہ کی یہ کتاب ا ن کے مضامین کو مجموعہ ہے اور انہی مضامین کے ذریعے میرا ان سے تعارف ہوا اور میں ان کی علمی قابلیت اور صلاحیتوں کی داد دیئے بغیر نہ رہ سکا۔ ان کے یہ مضامین بکھرے ہوئے تھے اور ان کو سمیٹ کر ان میں ترامیم کرنا ضروری تھی، تاکہ وہ زیادہ بہتر طور پر قاری تک پہنچ سکیں۔ یہ کام بھی انہوں نے خود ہی انجام دیا اور یہ کتاب اُن کی اِن کاوشوں کا ماحصل ہے۔
مجھے یقین ہے کہ ہمارے ملک میں اُن کی اس علمی کاوش کو کما حقہ سراہا جائے گا۔ کیونکہ اردو زبان میں یہ پہلی کتاب ہے، جو اتنی جامع اور مبسوط ہے۔