التد بیرات الا لھیۃ فی اصلاح الملکۃ الانسانیۃ
از شیخ اکبر محی الدین محمد ابن العربی
زیر نظر مضمون ابن عربی کی کتاب جس کا حوالہ اوپر دیا گیا ہے ، سے لیا گیا ہے۔ مزید معلومات تفصیل یا تحقیق کے لیے اس کتاب سے مستفید ہو سکتے ہیں۔
اب ہم انسانی پتھروں کے خواص کا تذکرہ کرتے ہیں
سنگ حیرانی
ان میں ایک (حجر البھت)سنگ حیرانی ہے، یہ ایک نایاب پتھر ہے جس میں غبار کے بادل ہوتے ہیں، اس کا مقام بحر ظلمات ہے اور اس میںعجب راز ہیں۔ یہ دل کا نکتہ ذاتی ہے جیسے انسان آنکھ کے تل میں ہے، اور آنکھ نظر کی جاہ ہے، یا جیسےجمعہ کی وہ ساعت (جس میں دعا قبول ہوتی ہے)جیسا کہ آپ کے سامنے جمعہ ایک شیشے کی شکل میں آیا تو اس میں ایک سیاہ نکتہ تھا، بتایا گیا یہی جمعہ کی وہ گھڑی ہے۔ لیکن اگر دل پر “الرّان” (یعنی غفلت) کا پردہ ہو تو اس پتھر کا وجود ظاہر نہیں ہوتا۔ انسان میں موجود تمام ارواح (یعنی قوتیں) جیسے عقل اور دیگر۔ اس نکتے پر اپنی نظر جمائے رکھتیں ہیں۔ جب دل ذکر، تلاوت اور مراقبے سے صاف شفاف ہوتا ہے تو یہ نکتہ بھی ظاہر ہوتا ہے، اور جب حاضرات حق الذاتی کے سوا کچھ بھی اس کے سامنے آتا ہے تو اس پتھر سے تجلی کے لیے ایسا نور پھوٹتا ہے جو جسم کے مختلف ذاویوںمیں سرایت کر جاتا ہے،یوں عقل اور دیگر (قوتیں) مبہوت ہو جاتی ہیں، انہیں اس پتھر سے نکلنے والا یہ نور اور اس کی چمک مبہوت کرتی ہے۔ پھر نتیجتاً ان کی ظاہری باطنی حرکت اور تصرف ختم ہو جاتا ہے ، اسی لیے اسے سنگ حیرانی کہتےہیں۔
ٍ اگر اللہ کسی بندے کی حفاظت کرنا چاہے تو وہ اس کے دل پر ایک خاص طرز کا بادل بھیجتا ہے جو اس نکتے سے نکلنے والے نور اور قلب کے درمیان آ جاتا ہے۔ لہذا یہ نور اس (بادل) سے ٹکرا کر واپس لوٹتا ہے اور ارواح اور اعضاء کو سکون ملتا ہے، یہی تو ثبات ہے۔ وہ بندہ نشان کی بقا کے لیے اس بادل کے پیچھے سے دیکھتا ہے، اس پتھر کی تجلی تو دائمی اور ابدی ہے، اسی لیے ہم یہ اکثر کہتے ہیں : بیشک حق جب کسی چیز پر تجلی کرتا ہے تو پھر اس سے محجوب نہیں ہوتا، لیکن صفات بدل جاتی ہیں ، اور اس معنی میںہمارے یہ اشعار ہیں۔:
“جب سے میں نے اللہ کا دروازہ کھٹکھٹانا شرو ع کیا، تو میں اس وقت سے مشاہدے میں ہوں، غافل نہیں، یہاں تک کہ آنکھوں پر اس کے چہرے کی پاکیزگیاں ظاہر ہوئیں اور جب وہ مجھ تک پہنچیں تو ان کے سوا کچھ نہ رہا”۔
اسی طرح اللہ جس دل میں ایمان لکھ دے تو پھر اسے کبھی نہیں مٹاتا، اسی لیے اس نے کہا:”یہی وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میںاس نے ایمان لکھ دیا ہے”۔ یہی وہ مطلوب نفع بخش پتھر ہے جو تجھے محبوب کا دیدار کرواتا ہے، یہ جان۔ قرآن میں اس راز کی آیت یہ ہے:”جب ان کے دلوں سے گھبراہٹ دور ہوتی ہے تو پوچھتے ہیں تمہارے رب نے کیا کہا؟ کہتے ہیں حق” اس (پتھر) کی ایک خاصیت یہ بھی ہے کہ جب کوئی کسی خاص وقت یہ پہن کر کہیں جائے تو ہر ایک چیز بغیر التفات اور معرفت کے اس کے سامنے مغلوب ہو جاتی ہے۔
زمرد
اور ان میں پتھر زمرد ہے ، کتاب اللہ میں اس کی آیت یہ ہے:”بیشک متقین کو جب شیطان کی طرف سے کوئی وسوسہ آتا ہے تو چونک پڑتے ہیں اور انہیں سب دکھائی دیتا ہے” ۔قوت یاداشت کی خاصیت یہ ہے کہ یہ حال میں ابلیس کو اس کی مکاری دیکھنے سے اندھا اور متحیر کر دیتی ہے، جب بھی وہ اس مومن کی طرف دیکھتاہے تو اسے ان دو حالتوں میں سے کسی ایک پر ہی پاتا ہے1
)یا وہ (انسان) غافل ہو تا ہے، تو شیطان ایک اور وار کرتا ہے
2) یا پھر وہ حضوری میں ہوتا ہے، ایسی صورت میں اگر یہ اس کے قریب جائے تو جل جائے۔
میں نے دیکھا ہے کہ یہ مردود اس گھر میں داخلے کی جرات نہیں کرتا جس میں کوئی عارف باللہ ہو ، چاہے سویا ہو یا جاگ رہا ہو۔
ان میں ایک پتھر سرخ یاقوت بھی ہے، کتاب اللہ میں اس کی آیت یہ ہے:”اس جیسی کوئی چیز نہیں “۔ اس (پتھر) کی خاصیت یہ ہے کہ جب انسان اپنی قدسی روح کی جہت سے اس کا مشاہدہ کرے تو ذات حق سے متعلق ان علوم پر مطلع ہو تا ہے کہ جن پر کوئی اور مطلع نہ ہو اور اگر وہ اپنے نفس غضبی کی جہت سے اس کا مشاہدہ کرے، اور کسی جابر کا سامنا ہو جائے، تو اس جابر کی بھی اس کے سامنے ایک نہیں چلتی، کہ وہ اپنے نفس میں اس کی تعظیم ہی پاتا ہے، اگر اس نے اسے دھمکی بھی دی ہو تو اس پر عمل نہیں کرتا۔
نیلا یاقوت
ان میں ایک پتھر نیلا یاقوت ہے،کتاب اللہ میں اس کی آیت یہ ہے:”اس کے حکم کو رد کرنے والا کوئی نہیں”۔ یہ پتھر انسان کو ربانیت عطا کرتا ہے،جو اصحاب احوال و اخلاق سے مخصوص ہے۔
زرد یاقوت
کتاب اللہ میں اس کی آیت یہ ہے:”اور اس کی خاصیت عبودیت ، ذلت اور محتاجی ہے۔ یہ ایک مشترک مقام ہے۔جسے یہ (مقام )ملا تو پھر وہ غیر معروف ہی رہا۔