درجہ اول کے جواہرات
قسط نمبر 6
الماس
شناخت
الماس سختی کے لحاظ سے سب سے سخت پتھر شمار ہوتا ہے۔ اگر یہ پتھر نیلم اور یاقوت کو کاٹ دے تو یہ اصلی الماس ہے۔ اس کو الٹرا وائلٹ ریز Ultra Violet Rays کی روشنی کے ذریعے آسانی سے شناخت کیا جا سکتا ہے۔ اگر متذکرہ بالا ریز اس پتھر میں سے گزر جائیں تو یہ نقلی پتھر ہے اور بصورتِ دیگر یہ اصلی الماس ہے۔
اگر الماس کو سورج کی روشنی میں لے جانے کے بعد اسے اندھیرے میں لایا جائے تو یہ کچھ عرصہ تک زیادہ چمک دیتا ہے۔ اسے خوربین سے بھی دیکھا جاتا ہے۔
جاری ہے۔۔۔
تا ریخی وابستگی:
اس کی اہمیت مندرجہ ذیل تاریخی واقعات سے لگائی جا سکتی ہے۔
کوہ نور
یہ ہیرا تقریباً آج سے 5000 سال پہلے گوداوری کے دریا کے دہانے سے ملا تھا۔ یہ ہندوستان کے اکثر شاہان اور شاہزادگان کی ملکیت میں رہا اور روایت ہے کہ (قیمتی اور لاثانی ہونے کی وجہ سے سب کی نظریں اس پر لگی ہوئی تھیں) یہ سازشوں کا باعث بنا۔ مالوہ کے راجے اس کو اپنی پگڑی میں لگایا کرتے تھے اور یہ ان کا اعتقاد تھا کہ جس دن یہ پگڑی سے گر جائے گا تو وہ دن رعایا کے لئے باعث ِ تباہی ہو گا اور 1304ء میں ایک دن یہ راجہ کی پگڑی سے بھرے دربار میں گر گیا تو اسی سال سلطان علائوالدین نے مالوہ پر حملہ کر کے یہ ہیرا مالوہ کے راجائوں سے حاصل کر لیا۔ اسی طرح یہ ہیرا ایک دن مہاراجہ بکرم جیت جو گوالیار کا مہاراجہ تھا، کے پاس پہنچ گیا۔ 1526ء میں پانی پت کی جنگ کے بعد ابراہیم لودھی کی والدہ نے یہ ہیرا دے کر اپنی اطاعت کا اظہار کیا۔ شہنشاہ ہمایوں نے یہ ہیرا اپنے والے بابر کی خدمت میں پیش کیا۔ اس نے دوبارہ اسے اپنے چہیتے بیٹے ہمایوں کو تحفے میں دے دیا۔ اس کی برکات کی وجہ سے مغل سلطنت پورے ہندوستان پر چھا گئی۔ کہ اجاتا ہے کہ مغلیہ دور میں اس نے شہنشاہ اکبر کے زمانے میں زیادہ چمک دمک کا مظاہرہ کیا اور اسی وجہ سے شہنشاہ اکبر کا عہد دورِ مغلیہ میں نمایاں حیثیت رکھتا ہے۔ یکایک اس کی چمک کم ہو گئی، تو شہنشاہ اکبر کے دو بیٹے فوت ہو گئے اور شہزادہ سلیم نے بغاوت کر دی اور شکستہ دل شہنشاہ 1605ء میں انتقال کر گیا۔ اسی طرح اس کی چمک دمک بدلتی رہی اور شاہ جہاں نے اپنے دور میں نمایاں کام کئے۔ دہلی میں عمارات بنوائیں، آگرہ کی موتی مسجد اور تاج محل تیار کروائے۔ 1739ء میں نادر شاہ نے ہندوستان پر چڑھائی کی اور فتوحات حاصل کیں۔ بعد میں ایک دوستی کا معاہدہ مغلوں اور نادرشاہ میں ہوا۔ معاہدہ کی رسم دستخط کے وقت مغل شہزادہ اسے اپنی پگڑی میں لگا کر نادرشاہ کے سامنے آیا، تو نادر شاہ نے اسے دیکھتے ہی اپنی پگڑی شہزادہ کے سر پر اور شہزادہ کی پگڑی اپنے سر پر رکھ لی، جسے پگڑی بدلنا کہتے ہیں۔ اس طرح یہ ہیرا نادر شاہ کے ہاتھ لگا۔ نادر شاہ کی موت کے بعد یہ ہیرا اس کے بیٹے شاہ رخ کے پاس آیا۔ مگر شاہ رخ ایک کمزور بادشاہ ہونے کی وجہ سے ہمیشہ دوسروں کے ہاتھوں میں رہا اور مرنے سے کچھ عرصہ پہلے اس نے یہ ہیرا افغانستان کے بادشاہ احمدشاہ کو دے دیا جو احمد شاہ کے جانشینوں سے مہاراجہ رنجیت سنگھ کے ہاتھ لگا اور کہا جاتا ہے کہ یہ ہیرا پھر اپنی چمک دمک میں آ گی اور رنجیت سنگھ کی حکومت ایک مستحکم اور بڑی حکومت شمار ہونے لگی۔ 1839ء میں رنجیت سنگھ کی موت کے بعد اس کے لڑکے (مہاراجہ دلیپ سنگھ) کو انگریزوں کے ہاتھوں 1849 میں شکست ہوئی اور کوہ نور ہیرا برطانیہ کے قبضہ میں آیا۔ ملکہ وکٹوریہ تک پہنچا اور تاجِ برطانیہ کی زینت بنا۔
ریجنٹ ہیرا
1616ء میں یہ ہیرا بھی گولکنڈہ سے ایک قیدی کو مشقت کے دوران ہاتھ لگا۔ جس کا وزن 410کیرٹ تھا۔ یہ قیدی قید سے فرار ہو گیا اور ایک جہاز میں سوار ہو گیا اور کرایہ کی جگہ اس نے جہاز کے کیپٹن کو یہ ہیرا دیا اور اپنی جان بچائی۔ کیپٹن نے یہ ہرا رام چندر نامی ساہوکار کے ہاتھ 5000 ڈالر میں فروخت کیا۔ رام چندر نے سرتھامس پٹ (جو اس وقت مدراس کا گورنر تھا) کے ہاتھ 20400 پونڈ میں فروخت کیا۔ تھامس پٹ نے ہندوستان سے واپسی پر اس ہیرے کو تراشوایا جس کا وزن 136 کیرٹ رہ گیا اور اسے ڈیوک آف آرلینس Duke of Orlens کے ہاتھوں 80,000 پونڈ میں فروخت کیا۔ 1717ء میں ڈیوک نے فرانس کے بادشاہ لوئیس کے ہاتھ 1,35,000 پونڈ میں فروخت کیا۔ مگر یہ لوئیس کے لئے منحوس ثابت ہوا اور انقلاب کی ابتداء ہوئی اور تباہی کا باعث بنا۔ اب یہ ہیرا فرانس کی اپالو گیلری میں موجود ہے۔
شاہ ہیرا
یہ بہت مشہور ہیرا ہے۔ اس کا وزن 88 کیرٹ ہے، اور ایک نایاب ہیرا ہے۔ اس پر تین نام کندہ ہیں۔ اکبر شاہ۔ نظام شاہ اور فتح علی شاہ۔ اس کا فارس (ایران) کی تاریخ سے قریبی رشتہ ہے۔ 1839ء میں شہزادہ خسرو نے زارنکولاس کو روسی سفیر کے تہران میں قتل ہونے کے عوض میں دیا جو آج کل ماسکو کے عجائب گھر میں ہے۔
اکبر شاہ ہیرا:
اس ہیرے پر عربی میں دو عبارتیں کندہ ہیں۔ (1) اکبر شاہ۔ شاہ عالم 1028ھ۔ (2) شاہِ شاہجہاں دو جہاں 1039ء۔ یہ ہرا لندن میں لایا گیا اور اس کو گیکواڑ آف بڑودہ نے 1,75,000 ڈالر میں خریدا۔ اس کا وزن 72 کیرٹ ہے۔
سانسی ہیرا
اس ہیرے کی ایک لمبی اور دلچسپ داستان ہے۔ مسٹر ڈی سانسی De-Sancy جن کا فرانس کے دربار سے تعلق تھا۔ انہوں نے ہنری سوئم شہنشاہ فرانس کی درخواست پر اس ہیرے کو سوئٹزرلینڈ کے ہاتھوں رہن رکھنے کے لئے بھیجا۔ مگر یہ ہیرا لے جانے والا راستے میں اس ہیرے کی وجہ سے قتل ہو گیا مگر قتل سے پہلے اس نے اس کو نگل لیا۔ بعد میں سانسی نے اس کا پیٹ چاک کر کے صحیح حالت میں ہیرے کو نکلوا لیا اور شہنشاہ جیمز اوّل (انگلستان) کے ہاتھوں فروخت کیا گیا۔ جس نے اسے 1661ء میں فرانس کے بادشاہ کے ہاتھوں فروخت کر دیا۔ 1672ء میں فرانس کے لوئیس نے اسے رسمِ تاجپوشی کے وقت اپنے تاج میں لگوایا۔ انقلاب ِ فرانس کے دوران یہ ہیرا غائب ہو گا۔ 1825ء میں بمبئی کے مشہور پارسی سرجمشید جی جیجا بھائی نے خرید لیا اور بعد میں اس لڑکے نے مہاراجہ پٹیالہ کے ہاتھ بیچ دیا اس کا وزن 55کیرٹ ہے۔
آرلودہیرا
یہ ہیرا کسی زمانے میں نادر شاہ کی ملکیت تھا۔ اس کی موت کے بعد ایک افغان سپاہی نے 1747 میں ایک آرمینی تاجر کے ہاتھوں فروخت کیا۔ جس نے اس کو کاونٹ گریگوری آرلود کے 1,400,000 فلورنگ میں فروخت کیا۔ کاونٹ نے اسے روس کی ملکہ کیتھرین دوئم کو تحفہ کے طور پرش کیا۔ اس کا وزن 200 کیرٹ ہے۔
درجہ اول کے جواہرات
الماس
shanakht
identity
قسط نمبر 6