درجہ اول کے جواہرات
قسط نمبر 1
یاقوت
اس پتھر کو انگریزی میں ’’روبی‘‘ “Ruby” ، ہندی میں ’’مانک‘‘ ، پنجابی میں ’’لال‘‘ اور سنسکرت میں ’’پدم راگ‘‘ کہتے ہیں۔ اس کا عربی نام ’’ لعل‘‘ ہے۔ اس کا شمار اعلیٰ درجے کے قیمتی پتھروں میں ہوتا ہے۔ یہ پتھر چمکدار اور بلوری لال رنگ کا ہوتا ہے جو اندھیری رات میں بھی چمکتا ہے۔ قدیم زمانے کے شعرااء اس کی سرخی کو محبوب کے ہونٹوں سے تشبیہہ دیتے تھے۔ اس کا استعمال زیورات کی زیبائش کو دوبالا کرتا ہے جو کہ زمانہ قدیم سے رائج ہے۔ خصوصی طور پر منگنی کی انگوٹھی میں بطور نگینہ اس پتھر کو استعمال کیا جاتا ہے۔ کیونکہ اس کو خوش بختی اور ازدواجی زندگی کی خوشگواری سے منسوب کیا جاتا ہے۔ عروسی کے جوڑے اور یاقوت کی رنگت کی یکسانیت بھی یاقوت کے حسین رنگ کی مرہون منت ہے۔
رنگت
یہ پتھر لال رنگ کے مختلف درجوں میں پایاجاتا ہے، جن کی تعداد چار ہے۔
-1 ’’سرخ حمری‘‘ جو کہ گہرا لال رنگ کا ہوتا ہے۔
-2 ’’سرخ اودی‘‘ جو کہ گلابی رنگ کا ہوتا ہے۔
-3 ’’سرخ نارنجی‘‘ جو کہ گہرے لال رنگ میں پیلے رنگ کی تھوڑی سی ملاوت سے بنتا ہے۔
-4 ’’سرخ لیموی‘‘ جو کہ پختہ لیمو سے مشابہت رکھتا ہے۔ یعنی زردی مائل سرخ۔
ان متذکرہ بالا رنگوں کی وجہ کرومیم کی آمیزش کی کمی یا زیادتی ہے۔ ماہرین جواہرات کا خیال ہے کہ جس یا قوت کا رنگ کبوتر کے تازہ خون سے ملتا ہو وہ رنگت کے لحاظ سے بہترین شمار کیا جاتا ہے۔
کیمیاوی مرکبات
اس پتھر میں 98 فیصد ایلومونا، ڈیڑھ فیصد چونا اور بہت معمولی مقدار میں کرومیم کی آمیزش ہوتی ہے۔
اقسام:
یہ بہت سی اقسام میں پایا جاتا ہے جن میں چار بہت مشہور ہیں۔ (1) مشرقی یاقوت۔ (2) مغربی یاقوت۔ (3) ستائل یاقوت۔ (4) پیلس یاقوت۔ یہ تمام اقسام سختی، رنگت اور مخصوص وزن کے لحاظ سے ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ جوہری حضرات اس کی تشریح مندرجہ ذیل طریقہ میں کرتے ہیں۔
-1 ’’چولاون‘‘ اس کا رنگ گاڑھا سرخ ہوتا ہے۔
-2 ’’بنوسی‘‘ یہ رنگ قدرے سیاہی مائل سرخ ہوتا ہے۔
-3 ’’کھیرا‘‘ یہ رنگت میں سرخ کتھئی ہوتا ہے۔
-4 ’’گلگوں‘‘ جس کا رنگ زردی مائل سرخ ہوتا ہے۔
-5 ’’اطلسی‘‘ یہ گہرا سرخ مگر تربوزی رنگ کا ہوتا ہے۔
ساخت: مندرجہ ذیل پر مبنی ہے۔
-1 وزن مخصوص Specific Gravity 4.10درجے
-2 سختی Hardness 9.00 درجے
-3 عکس Reflactive Index 1.77 درجے
-4 پگھلنے کا درجہ Melting Point 3686FO
شناخت
اس پتھر کی سختی 9 درجے ہوتی ہے اور یہ صرف الماس ہی سے کٹتا ہے۔ اگر اس کو کوئی کم قیمت کا پتھر کاٹ دے تو وہ اصلی یاقوت نہیں ہے۔ یہ پتھر بہت ہلکا ہوتا ہے (حجم کے لحاظ سے) اس کی پرکھ Chelsea Colour Filter سے باآسانی ہو سکتی ہے۔ یعنی اگر فلٹر سے اس کی روشنی کی شعاعیں پار ہو جائیں تو وہ نقلی ہے اور اگر نہ گزریں تو اصلی ہے۔ یہ فلٹر عینک والوں کی دکانوں سے مل سکتا ہے۔
عیب: یہ پتھر قیمتی ہونے کے باوجود کچھ عیب بھی رکھتا ہے۔ جس سے اس کی قدروقیمت کم ہو جاتی ہے۔ جوہری حضرات اس کے مندرجہ ذیل عیب بیان کرتے ہیں۔
-1 ’’چیرا‘‘ جب اس کے اندر شگاف آ جاتا ہے اسے چیرا کہتے ہیں۔
-2 ’’دودھیا‘‘ جب اس کی رنگت دودھیا ہو جائے۔
-3 ’’ابرک‘‘ جب اس کے اندر ابرک کے آثار نمایاں ہوں۔
-4 ’’بنوسی‘‘ جب سیاہی مائل سرخ ہو تو یہ رنگ عیب والا سمجھا جاتا ہے۔
-5 ’’جوتلا‘‘ زردی مائل رنگت کا بھی عیب میں شمار ہوتا ہے۔
-6 ’’ماوا‘‘ سیاہی مائل ہونے کے علاوہ مندرجہ بالا کوئی عیب ہو۔
-7 ’’ڈھایا‘‘ پتھر کا بے آب اور بے رونق ہونا۔
درجہ اول کے جواہرات
قسط نمبر 1
یاقوت
ruby
Ruby